میون کے انجن اسے مریخ کے گرد 35 گھنٹوں کے بیضوی مدار میں پہنچانے میں کامیاب رہے
امریکی خلائی ادارے ناسا کا خلائی جہاز مریخ کے مدار میں کامیابی سے داخل ہوگیا ہے۔ میون‘ نامی یہ جہاز گذشتہ دس ماہ سے خلا میں مریخ کی جانب بڑھ رہا تھا اور پیر کو اس نے اپنے راکٹ فائر کر کے بریک لگائی جس کے نتیجے میں رفتار سست ہونے پر مریخ کی کششِ ثقل نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا. میون کا مشن سرخ سیارے کی بالائی فضا پر تحقیقات کر کے یہ پتہ چلانا ہے کہ مریخ کرۂ ہوائی سے تقریباً عاری کیوں ہے۔ اس وقت مریخ کی سطح پر ہوا کا دباؤ اس قدر کم ہے کہ وہاں پانی فوراً ابل کر بخارات کی شکل میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ میون کے جمع کردہ ڈیٹا سے سائنس دانوں کو مریخ پر ماضی میں موجود موسمیاتی حالات کا مطالعہ کرنے میں مدد ملے گی۔ اس مہم کے مرکزی محقق بروس جارکووسکی نے کہا: ’اس سے قبل خلائی جہازوں کے بھیجے گئے اعداد و شمار کی مدد سے ہمیں مریخ کی بالائی فضا کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل ہوئی ہیں، لیکن ہم تاحال معمے کے سارے ٹکڑے نہیں جوڑ سکے۔‘ انھوں نے مزید کہا: ’مجھے امید ہے کہ میون کی مدد سے ہمیں مریخ کے بارے میں ایسی دریافتیں کرنے میں مدد ملے گی جن سے ہم وہاں کے ماحول اور اس کے ارتقا کے بارے میں بہت کچھ جان سکیں گے۔‘ میون کے انجن اسے مریخ کے گرد 35 گھنٹوں کے بیضوی مدار میں پہنچانے میں کامیاب رہے، جسے بعد میں ساڑھے چار گھنٹے کے مدار میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس وقت مریخ کا کرۂ ہوائی بڑی حد تک کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مبنی ہے۔ یہ بے حد پتلا ہے اور اس کا دباؤ زمین کی نسبت صرف 0.6 فیصد ہے۔ تاہم مریخ کی سطح پر کٹاؤ کے آثار پائے جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں وہاں وافر مقدار میں پانی بہتا تھا۔
میون کے جمع کردہ ڈیٹا سے سائنس دانوں کو مریخ پر ماضی میں موجود موسمیاتی حالات کا مطالعہ کرنے میں مدد ملے گی
کچھ ہوا تو اس پانی میں حل ہو گئی ہو گی تاہم مریخ کے کرۂ ہوائی کے ضائع ہونے کی سب سے ممکنہ توجیہ یہ ہے کہ اسے سورج سے نکلنے والی تیز رفتار ہواؤں نے ختم کر ڈالا۔ زمین کے برعکس سرخ سیارے کا کوئی مقناطیسی میدان نہیں ہے، جب کہ زمین کا طاقتور مقناطیسی میدان سورج کے ذرات کو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی منعکس کر دیتا ہے۔
بھارتی خلائی جہاز بھی مریخ کے قریب
امریکی خلائی جہاز کے 48 گھنٹے بعد بھارت کا بھیجا ہوا جہاز بھی مریخ پہنچ جائے گا۔ اس مشن کا غیر رسمی نام منگلیان ہے اور اس کے مقاصد ناسا کے مشن سے مختلف ہیں۔ منگلیان مریخ کی فضا میں میتھین گیس کی مقدار ناپنے کی کوشش کرے گا۔ یہ گیس ممکنہ طور پر سیارے پر پائی جانے والی حیاتیاتی سرگرمیوں کا سراغ فراہم کر سکتی ہے۔ بھارتی خلائی تحقیق کی تنظیم اسرو نے پیر کو ٹوئٹر پر کہا، ’ہمارے حساب کے مطابق منگليان مریخ کے کشش ثقل کے علاقے میں داخل ہو گیا ہے۔‘ مریخ کی کششِ ثقل کا علاقہ سیارے سے تقریباً چھ لاکھ کلومیٹر کی دوری سے شروع ہو جاتا ہے۔ اسرو پیر کو ہی منگليان کی سمت درست کرنے اور اس کے مائع ایندھن کا تجربہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس تجربے میں دس ماہ سے غیر استعمال شدہ انجن کو تقریباً چار سیکنڈ تک چلایا جائے گا۔ بھارت اگر اپنے اس مریخ مشن میں کامیاب رہتا ہے تو وہ سرخ سیارے پر کامیاب مشن بھیجنے والا ایشیا کا پہلا اور دنیا کا چوتھا ملک بن جائےگا۔
Be the first to comment